غزہ ٹریبیونل نے پیر کے روز جاری کردہ بیان میں ، اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جاری "نسل کشی کے مہلک ترین مرحلے" کو روکنے کے لئے، فوری بین الاقوامی مسلح مداخلت کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا ہے کہ اگر کارروائی نہ کی گئی تو یہ "انسانیت کی ایک تاریخی ناکامی" ہوگی۔
استنبول میں ایک پریس کانفرنس کے دوران، آزاد ٹریبونل کے صدر رچرڈ فالک نے حکومتوں پر زور دیا ہےکہ وہ سلامتی کونسل کو نظرانداز کرکے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو مسلح مداخلت کی اجازت دینے کا اختیار دیں۔
امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ،2008 تا 2014 فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے سابق نمائندہ خصوصی برائے حقوقِ انسانی اور غیر جانبدار عدالت کے سربراہ 'رچرڈ فالک' نے کہا ہے کہ "اگر ہم اس وقت سنجیدہ اور سخت اقدامات نہیں کرتے تو ، ان زندہ بچ جانے والے لوگوں کو بچانے کے لیے جو پہلے ہی 22 ماہ سے زیادہ کی نسل کشی سے صدمے کا شکار ہیں ،کسی بھی معتدل انداز میں کی جانے والی کارروائی کے لئے بہت دیر ہو جائے گی"۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ"دنیا کی آنکھیں اور کان ایسی نسل کشی کو کہ جس کی ، بشمول ہولوکاسٹ، کوئی مثال نہیں ملتی مکمل عریانیت کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ دیکھ اور سُن رہے ہیں۔ یہ ہماری انسانیت کا امتحان ہے۔"
فالک نےعالمی رائے عامہ میں تبدیلی کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ مغربی ممالک اس نسل کُشی میں شریک ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ "ہم تمام لوگوں کے ضمیر کو مخاطب کرنے اوراسلحہ پابندیوں اور دیگر مختلف قسم کی پابندیوں سمیت ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حکومتوں میں تبدیلیاں لائیں۔ اس میں جدوجہدِ فلسطین کے ساتھ یکجہتی بھی شامل ہے کہ جو انسداد نسل پرستی کی مہم میں بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے"۔
ٹریبیونل کے ہنگامی بیان بعنوان "وقت برائے عمل: غزہ شہر اور وسطی غزہ پر اسرائیل کے منصوبہ بند قبضے کے خلاف متحرک ہونا" میں اسرائیل کی 7 اگست کی قومی سلامتی کابینہ کے فیصلے کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ فالک نے کہا ہے کہ "یہ فیصلہ کچھ نہیں تو ایک ملین بے گھر فلسطینیوں کی پناہ گاہ یعنی غزّہ سِٹی پر قبضہ جاری رکھنے کا فیصلہ ہے اور خود اسرائیل کی اپنی اعلیٰ فوجی کمانڈ نے اس کی مخالفت کی ہے۔
فالک نے، 1950 کے اتحاد برائے امن فیصلے اور 2005 میں اقوام متحدہ اجلاس میں منظوری کی گئی ذمہ داری برائے تحفظ کا حوالہ دیا اور کہا ہے کہ " شدت میں ممکنہ اضافہ "سخت اقدامات کے لئے" اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو گہرائی سے چیلنج کرتا ہے " ۔
اقوام متحدہ کے فلسطینی سفیر ریاض منصور کی فوری حفاظتی فورسز کی اپیل کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹریبونل نے اعلان کیا ہے کہ "ہم، بحیثیت غزہ ٹربیونل کے،خاموشی کو نسل کُشی میں شرکت سمجھنے والوں کے ساتھ ہیں۔"
فالک نے سچائی کو دبانے کی منظم کوششوں کی بھی مذمت کی اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندوں پر پابندیوں اور "10 اگست کو اسس الشافیر اور ان کے الجزیرہ کے ساتھیوں کے قتل کو سچائی بتانے والوں کو خاموش کرنے کی ایک اور پرتشدد کوشش" قرار دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "غزہ ٹریبونل کا ایک حصہ سچائی یا حقیقت کے تصورات کے کردار کو مضبوط کرنا ہے۔ اور یہ نہ صرف غزہ بلکہ دنیا کی بھلائی کے لیے بھی اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔"
ٹریبونل اب اگلے ماہ نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ فالک نے کہا، "ہم امید کرتے ہیں کہ آج یہ بیان جاری کرنے کے عمل کے ذریعے اس کے لیے بنیاد رکھ دی گئی ہے۔"
غزہ ٹریبیونل کیا ہے؟
غزہ ٹریبیونل نومبر 2024 میں لندن میں تقریباً 100 ماہرین تعلیم، دانشوروں، انسانی حقوق کے حامیوں اور سول سوسائٹی کی شخصیات کے ذریعے شروع کیا گیا تھا، جس میں غزہ میں بین الاقوامی قانون کو نافذ کرنے میں منظم بین الاقوامی برادری کی "مکمل ناکامی" کا حوالہ دیا گیا تھا۔
تب سے، اس نے متعدد اجلاس منعقد کیے ہیں، جن میں فروری 2025 میں لندن میں ایک چیمبر میٹنگ اور استنبول میں ایک حکمت عملی اجلاس شامل ہے تاکہ بین الاقوامی عوام کو بریف کیا جا سکے۔
مئی میں، ٹریبیونل نے بوسنیا کے شہر سراجیو میں چار روزہ عوامی اجلاس منعقد کیا، جس میں گواہوں، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور ماہرین کی گواہی سنی گئی۔
اس اجلاس کا اختتام سراجیو اعلامیہ پر ہوا، جس میں اسرائیل پر نسل کشی، جنگی جرائم اور نسل پرستی کے الزامات عائد کیے گئے۔
اکتوبر میں استنبول میں ایک آخری سماعت ہوگی، جہاں "ضمیر کی جیوری تمام گواہیوں اور شواہد کی بنیاد پر ایک اخلاقی فیصلہ دے گی،" ٹریبونل کے ایک اور بیان میں کہا گیا۔