سیاست
5 منٹ پڑھنے
پاکستان، ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید نتائج کا سامنا کر رہا ہے
جون اور جولائی کے دوران پاکستان میں ہونے والی بارشیں 10 سے 15 فیصد زیادہ شدید تھیں اور ان کے نتیجے میں شہری و دیہی علاقوں میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئی ہیں: ڈبلیو ڈبلیو اے
پاکستان، ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید نتائج کا سامنا کر رہا ہے
فائل - لاہور، پاکستان میں مون سون کی شدید بارشوں سے زیر آب سڑک پر گاڑیاں گزرتی ہوئی، 23 جولائی، 2025۔ / AP
7 اگست 2025

پاکستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے  اور سینکڑوں اموات کا سبب بننے والے سیلابی ریلے ماحولیاتی بحران کی وجہ سے مزید سنگین شکل اختیار کر گئے ہیں۔

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کی پیدا کردہ شدید قدرتی آفات  کا جائزہ لینے والے سائنس دانوں پر مشتمل گروپ "ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن" ڈبلیو ڈبلیو اے  کی تحقیق کے مطابق، 24 جون سے 23 جولائی کے دوران پاکستان میں ہونے والی بارشیں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے 10 سے 15 فیصد زیادہ شدید تھیں اور ان  کے نتیجے میں شہری و دیہی علاقوں میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئی ہیں۔

پاکستان حکومت کے مطابق، 26 جون سے اب تک سیلابوں، شدید بارشوں اور دیگر موسمی آفات کی وجہ سے کم از کم 300 افراد ہلاک  ہو گئے ہیں  اور 1600 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

شمالی پاکستان کے 50 سالہ تاجر'ثاقب حسن' نے بتایا  ہےکہ 22 جولائی کو آنے والے سیلاب نے ان کے گھر، ان کے 18 رشتہ داروں کے گھروں  اور  ان کے ڈیری فارم کو  تباہ کر دیا ہے۔ ان کے فارم کے مویشی   سیلابی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس سے ان کے خاندان کو تقریباً 10 کروڑ روپے (360,000 ڈالر) کا نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا  ہےکہ وہ، سرور آباد نامی ایک چھوٹے  سےقصبے کے رہائشی ہیں اور  قریبی مسجد سے آخری لمحات میں گھروں کو خالی کرنے اور محفوظ مقام پر جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

انہوں نے فون پر بات چیت میں  کہا ہے کہ "ہم اب بے گھر ہیں۔ ہمارے گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ حکومت نے ہمیں راشن کے لئے صرف 50,000 روپے (177 ڈالر) اور سات خیمے دیئے ہیں، جن میں ہم پچھلے دو ہفتوں سے رہ رہے ہیں"۔

اس تحقیقی ٹیم سے باہر  اور اسلام آباد میں مقیم ماحولیاتی سائنسدان 'جیکب اسٹینر'نے کہا  ہےکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شدید موسمی حالات کی رفتار اور شدّت  ماہرین کے اندازوں سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ "گذشتہ چند ہفتوں میں، ہم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا  میں ایسے واقعات کی کثرت  پر  حیران ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ بہت سے واقعات جو ہم نے 2050 میں ہونے کی پیش گوئی کی تھی  2025 میں ہو رہے ہیں کیونکہ اس موسم گرما میں درجہ حرارت ایک بار پھر اوسط سے کہیں زیادہ رہا ہے"۔

شدید مون سون بارشوں نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران جنوبی ایشیا اور  خاص طور پر ، ہمالیہ سلسلہ کوہ  والے، پانچ ممالک میں  کئی آفات کو جنم دیا ہے۔

جولائی میں، گلیشیئر جھیلوں میں طغیانی نے نیپال اور چین کو جوڑنے والا ایک اہم پل اور کئی ہائیڈرو پاور ڈیموں کو نقصان پہنچایا  ہے۔

رواں  ہفتے کے آغاز میں شمالی بھارت کے ایک گاؤں میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور سینکڑوں لاپتہ ہو گئے۔

ماحولیاتی ہنگامی صورتحال

ڈبلیو ڈبلیو اے کی  بروزجمعرات جاری کردہ تحقیقی رپورٹ میں  کہا گیا ہے  کہ پاکستان میں جن بارشوں کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے وہ ظاہر کرتی ہیں کہ ماحولیاتی بحران سیلاب کو مزید خطرناک بنا رہا ہے۔

ماحولیاتی سائنسدانوں نے کہا ہے  کہ زیادہ گرم ماحول میں نمی کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہ چیز  بارشوں میں شدّت پیدا  کر سکتی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو اے تحقیق  رپورٹ کی مرکزی مصنفہ اور امپیریل کالج لندن کے سینٹر فار انوائرمنٹل پالیسی کی محقق مریم زکریا نے فوسل ایندھن سے قابل تجدید تونائی کی طرف تیز ترین منتقلی کی ضرورت کو اجاگر کیا اور کہا ہے کہ"گرمی کا ہرڈیسی مل  مون سون  بارش کو شدید کر دے گا"۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ پاکستان ماحول کو گرم کرنے والی گیسوں کے محض  ایک فیصد سے بھی کم  کا ذمہ دار ہے لیکن اسے  شدید موسمی حالات کی وجہ سے  غیر متناسب نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

پاکستان نے 2022 میں سب سے تباہ کن مون سون کا سامنا کیا۔ اس سال کے  سیلابی ریلوں  نے 1,700 سے زائد افراد کی جان لے لی اور تقریباً 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا۔

اقوام متحدہ کے مطابق، ماحولیاتی بحران کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے قائم کردہ عالمی فنڈ یا ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت کے لیے قائم کردہ فنڈ، پاکستان جیسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار  ممالک کی مدد کے لیے، درکار رقم سے بہت زیادہ  کم ہے ۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ عالمی فنڈ سالانہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلقہ اقتصادی نقصان کو پورا کرنے کے لیے درکار رقم کے محض ایک چھوٹے سے حصّے کو پورا کرتا ہے۔

اسی طرح، اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک جیسے ترقی یافتہ ممالک  جو ماحول کو گرم کرنے والی گیسوں کے اخراج کے سب سے ذیادہ ذمہ دار ہیں موافقت کی مالی معاونت میں درکار رقم سے کہیں کم فراہم کر رہے ہیں۔

یہ فنڈ، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہائش اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو اے رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ، عام طور پر سیلاب  کا خطرہ محسوس کرنے والے علاقوں میں،  ناپائیدار  گھروں میں مقیم  ہے۔ رپورٹ میں بتائی گئی   300 اموات میں سے نصف سے زیادہ مکانات گرنے سے واقع ہوئی ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو اے رپورٹ کی مصنفین میں شامل اور ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ کلائمیٹ سینٹر کی رکن ' مایا والبرگ' نے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ "پاکستان کی شہری آبادی کا نصف  ایسی بستیوں میں مقیم ہے جن کی تعمیراتی ساخت  سیلاب  کے مقابل غیر پائیدار ہے یہی وجہ ہے کہ  یہاں آنے والے سیلاب میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوتا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ "سیلاب کے مقابل پائیدار  مکانات کی تعمیر اور سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیرات سے گریز کرنا شدید مون سون بارش کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے"۔

دریافت کیجیے
لوور میوزیم میں تاریخی تزئین و آرائش: "مونا لیزا" کے لئے خصوصی کمرہ
قیدیوں کی زبانی،الاباما جیل کہانی
ہاتشیپسوت کے تاریخی نوادرات
چار سو سال پرانا آشوری بازار
محبت کیا ہے؟
ترک فنکار، زنزیبار کی سمندری معیشت کو فنون کے ذریعے جانبرکر رہے ہیں
داتچہ میں عہدِ عثمانیہ کا غرق شدہ  بحری جہاز  17ویں صدی کی بحری تاریخ پر روشنی ڈال رہاہے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترک ڈرامے دنیا میں ترکیہ کے چہرے کو بدل رہے ہیں
آزادی فلسطین کی حامی وکیل عائشہ نور
ڈنمارک  کا آرکٹک سمندر  میں اپنے وجود  کو مضبوطی دلانے کے لیے 2 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
TRT گلوبل چیک کریں۔ اپنی رائے کا اشتراک کریں!
Contact us