فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یوکرین نے روس کے ساتھ امن معاہدے کے بعد امریکی سلامتی کی ضمانت حاصل کرنے کے منصوبے کے حصے کے طور پر یورپی اتحادیوں کی مالی اعانت سے 100 ارب ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار خریدنے کی پیش کش کی ہے۔
اتحادیوں کے ساتھ شیئر کی گئی ایک دستاویز اور اخبار نے اس تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس تجویز میں امریکی شراکت داروں کے ساتھ 50 ارب ڈالر کا ڈرون بنانے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
یہ پیکج یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل جاری کیا گیا تھا۔
کیف کا یہ مؤقف ٹرمپ کی جانب سے امریکی صنعت کے لیے اقتصادی فوائد پر زور دینے کی اپیل کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
مستقبل میں امداد کے بارے میں پوچھے جانے پر ٹرمپ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 'ہم کچھ بھی نہیں دے رہے ہیں ،ہم ہتھیار فروخت کر رہے ہیں۔
اس دستاویز میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دیرپا امن روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو رعایتوں اور مفت تحائف پر مبنی نہیں ہوگا، بلکہ ایک مضبوط سیکیورٹی فریم ورک پر مبنی ہوگا جو مستقبل کی ممکنہ جارحیت کو روکے گا۔
یوکرین نے دونیتسک اور لوہانسک کے کچھ حصوں سے فوجیوں کے انخلا کے بدلے فرنٹ لائن کو منجمد کرنے کی روسی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے ۔
جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے واشنگٹن میں زیلنسکی اور ٹرمپ کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی سب سے پہلے ہونی چاہیے۔
انھوں نے ماسکو پر مزید دباؤ ڈالنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اگلی ملاقات جنگ بندی کے بغیر ہو گی۔
یوکرین کی دستاویز میں روس سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر مغربی ممالک میں موجود 300 ارب ڈالر کے منجمد روسی اثاثوں کے ذریعے جنگ کے دوران ہونے والے
نقصانات کی تلافی کرے، اس کا اصرار ہے کہ پابندیوں میں کسی بھی قسم کی نرمی ماسکو کی جانب سے امن معاہدے کی تعمیل سے مشروط ہونی چاہیے۔
روسی میڈیا پر ٹرمپ کی قیادت کا مذاق اڑانے والی فوٹیج کو دستاویز میں اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ کریملن امن کی کوششوں کے بارے میں غیر سنجیدہ ہے۔
یہ تجاویز الاسکا میں پوٹن کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات کے چند روز بعد سامنے آئی ہیں، جہاں امریکی صدر نے "بڑی پیش رفت" کا دعویٰ کیا تھا لیکن اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ تنازع کے خاتمے کے لئے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔