غّزہ جنگ
4 منٹ پڑھنے
اسرائیل میں ہزاروں افراد کے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے مظاہرے
مظاہرین نے القدس اور تل ابیب میں سڑکیں، سرنگیں اور پل بند کرنے کی کوشش کی، جس پر حکام نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے  تیز دھار پانی   کا استعمال کیا
اسرائیل میں ہزاروں افراد کے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے مظاہرے
اسرائیلی چیف آف اسٹاف نے سرکاری طور پر غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ / AP
ایک دن قبل

ہزاروں اسرائیلیوں نے ملک گیر ہڑتال کی، جس کے دوران کئی شہروں میں شاہراہیں بند کی گئیں تاکہ بنیامین نیتن یاہو کی حکومت پر فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرنے اور غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔

اتوار کے روز عام ہڑتال ان اسرائیلی قیدیوں کے خاندانوں کی جانب سے بلائی گئی تھی جو غزہ میں قید ہیں۔ ان خاندانوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کے گزشتہ ہفتے غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے فیصلے سے ان کے پیاروں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

مظاہرین نے القدس اور تل ابیب میں سڑکیں، سرنگیں اور پل بند کرنے کی کوشش کی، جس پر حکام نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے  تیز دھار پانی   کا استعمال کیا۔

مظاہرین نے ٹائروں کو آگ لگا دی، جس کی وجہ سے ٹریفک میں بڑے پیمانے پر خلل پیدا ہوا۔

سینکڑوں نجی کمپنیوں، بلدیاتی اداروں اور تنظیموں نے اس احتجاج میں حصہ لیا، جبکہ سرکاری نشریاتی ادارے کان نے کہا کہ ہزاروں مظاہرین نے بڑی شاہراہیں بند کر دیں، جس سے ٹریفک جام اور ٹرین سروس معطل ہو گئی۔

ریستوران اور کیفے بھی بند رہے، جبکہ ہارٹز نےرپورٹ کیا کہ درجنوں اسرائیلی فنکار، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں نے احتجاج کی حمایت کی اور اس میں شامل ہوئے۔

وکلاء، ڈاکٹروں اور کاروباری فورم سمیت  متعددیونینز اورالقدس  کی عبرانی یونیورسٹی نے بھی ہڑتال میں اپنی شرکت کی تصدیق کی۔

اسرائیلی پولیس کے مطابق، ہڑتال کے دوران ملک بھر میں 38 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، جیسا کہ روزنامہ یدیوت احرونوت نے رپورٹ کیا۔

اپوزیشن کی شرکت

اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ نے تل ابیب کے ہوسٹیجز اسکوائر کا دورہ کیا اور ہڑتال میں حصہ لیا۔

انہوں نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں کہا،"ہم آج ہڑتال کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے یرغمالی وہ مہرے نہیں ہیں جنہیں حکومت جنگی کوششوں کے لیے قربان کر سکتی ہے۔ وہ شہری ہیں جنہیں حکومت کو ان کے خاندانوں کے پاس واپس لانا چاہیے۔"

انہوں نے مزید کہا، "وہ ہمیں روک نہیں سکتے، وہ ہمیں چپ نہیں کرا سکتے، اور نہ ہی ہمیں مایوس کر سکتے ہیں۔ ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک یرغمالی واپس نہیں آ جاتے، معاہدہ نہیں ہو جاتا، اور جنگ ختم نہیں ہو جاتی۔"

نیشنل یونٹی کے رہنما بینی گینٹز نے بھی مظاہرین کی حمایت کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یرغمالیوں کے خاندانوں پر حملہ نہ کرے۔

سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے بھی تل ابیب میں یرغمالیوں کے خاندانوں کی حمایت میں ہڑتال میں شرکت کی۔

انہوں نے کہا، "ہمارا یہ اولین فرض ہےکہ ہم سب کو گھر واپس لائیں۔"

اسرائیلی یونیورسٹیوں کے چانسلرز بھی نیتن یاہو حکومت سے جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں میں موجود تھے۔

بین گوریون یونیورسٹی آف دی نیگیو کے چانسلر  ڈینیئل چمووٹز نے اپنی تقریر میں کہا، "گزشتہ مارچ میں، اسرائیل کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں کے سربراہان نے وزیر اعظم کو ایک خط پر  بھیجا۔ ہم نے واضح طور پر کہا کہ حکومت کو معاہدہ مکمل کرنا چاہیے اور سب کو واپس لانا چاہیے۔"

انہوں نے مزید کہا، "یہ کوئی سیاسی دعویٰ نہیں تھا؛ یہ ایک اخلاقی اور ضمیر کی پکار تھی۔"

انتہائی دائیں بازو

انتہائی دائیں بازو کی اپوزیشن اور اسرائیلی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے اراکین نے ہڑتال کی مذمت کی، جبکہ انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے منتظمین پر “حماس کے فائدے کے لیے جذباتی استحصال” کا الزام لگایا۔

انہوں نے دعویٰ کیا،"جیسا کہ ابھی نظر آ رہا ہے، غیر ذمہ دار میڈیا اور خود غرض سیاسی عناصر کی جانب سے دیوانہ وار کوششوں کے باوجود، یہ مہم زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر رہی اور اس میں بہت کم لوگ شامل ہیں۔"

انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے ایکس پر کہا کہ مظاہرین"وہی لوگ ہیں جنہوں نے پہلے اسرائیل کو کمزور کیا تھا اور آج دوبارہ ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

8 اگست کو، اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے نیتن یاہو کے غزہ شہر پر مکمل قبضے کے منصوبے کی منظوری دی، جس پر کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید بین الاقوامی ردعمل آیا۔

اسرائیلی اندازوں کے مطابق، تقریباً 50 قیدی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے، جبکہ اسرائیل کے جیلوں میں 10,800 سے زائد فلسطینی قید ہیں، جنہیں سنگین حالات کا سامنا ہے۔ حقوق کے گروپوں نے تشدد، بھوک اور طبی غفلت کے باعث اموات کی اطلاع دی ہے۔

دریافت کیجیے
لوور میوزیم میں تاریخی تزئین و آرائش: "مونا لیزا" کے لئے خصوصی کمرہ
قیدیوں کی زبانی،الاباما جیل کہانی
ہاتشیپسوت کے تاریخی نوادرات
چار سو سال پرانا آشوری بازار
محبت کیا ہے؟
ترک فنکار، زنزیبار کی سمندری معیشت کو فنون کے ذریعے جانبرکر رہے ہیں
داتچہ میں عہدِ عثمانیہ کا غرق شدہ  بحری جہاز  17ویں صدی کی بحری تاریخ پر روشنی ڈال رہاہے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترک ڈرامے دنیا میں ترکیہ کے چہرے کو بدل رہے ہیں
آزادی فلسطین کی حامی وکیل عائشہ نور
ڈنمارک  کا آرکٹک سمندر  میں اپنے وجود  کو مضبوطی دلانے کے لیے 2 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
TRT گلوبل چیک کریں۔ اپنی رائے کا اشتراک کریں!
Contact us