وزارت داخلہ کی جانب سے پیر کے روز موصول ہونے والی ابتدائی اطلاعات کے مطابق جنوبی شام کے صوبے سویدہ میں مسلح بدو قبائلی جنگجوؤں اور دروز ملیشیا کے درمیان جھڑپوں کے دوران 30 سے زائد افراد ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہو گئے۔
وزارت نے اتوار کی رات سویدہ کے المکوس علاقے میں "مقامی مسلح گروہوں اور قبائل" کے درمیان ہونے والی "خونریز پیش رفت" پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 'اس تناظر میں وزارت داخلہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس کی افواج کے یونٹ وزارت دفاع کے تعاون سے تنازع کے حل کے لیے خطے میں براہ راست مداخلت کریں گے، جھڑپوں کو روکیں گے، سیکیورٹی نافذ کریں گے، واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے اور انہیں مجاز عدلیہ کے حوالے کریں گے۔'
سرکاری خبر رساں ادارے سانا کے مطابق علاقے میں تعینات متعدد فوجی اہلکار بھی شہری آبادی کو کالعدم گروہوں سے بچانے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
شام کے وزیر داخلہ انس خطاب نے جنوبی گورنری سویدہ اور اس کے دیہی علاقوں میں جاری کشیدگی کی بنیادی وجہ "ریاستی اداروں، خاص طور پر فوجی اور سیکورٹی اداروں کی عدم موجودگی" کو قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی حل نہیں ہے سوائے اس کے کہ سیکیورٹی اقدامات کیے جائیں اور شہری امن کو یقینی بنانے اور زندگی کو معمول کی حالت میں لانے کے لیے اداروں کے کردار کو فعال کیا جائے۔
اتوار کی رات سویدہ میں مقامی بدو قبائل اور دروز ملیشیا کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں عام شہری اور ملیشیا کے ارکان ہلاک اور زخمی ہوئے۔
تقریبا 25 سال تک شام کے ڈکٹیٹر رہنے والے بشار الاسد 1963 سے برسراقتدار باتھ پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے دسمبر میں فرار ہو کر روس چلے گئے تھے۔
جنوری میں شام میں صدر احمد الشرع کی سربراہی میں ایک نئی عبوری انتظامیہ تشکیل دی گئی تھی۔