فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے کہا ہے کہ اسے ثالثوں کے ذریعے امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی نئی تجویز موصول ہوئی ہے اور اس نے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
گروپ نے گزشتہ روز ٹیلی گرام کے ذریعے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ثالثوں کے ذریعے امریکہ کی طرف سے کچھ تجاویز موصول ہوئی ہیں ۔
متعلقہ گروپ نے جنگ کے خاتمے اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کے واضح اعلان کے بدلے تمام قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کے لیے فوری طور پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ۔
حماس نے علاقے کے انتظامی امور کے انتظام کے لئے ایک آزاد فلسطینی کمیٹی کی تشکیل پر بھی اتفاق کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل ممکنہ طے پانے والے معاہدے پر اپنے عزم کو یقینی بنائے تاکہ ماضی کے تجربات کو دہرانے سے روکا جاسکے جہاں معاہدے طے پائے تھے لیکن پھر مسترد یا منسوخ کردیئے گئے تھے"۔
ٹرمپ کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں: نیتن یاہو
بیان میں کہا گیا ہے کہ 18 اگست کو اس نے امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز کی بنیاد پر مصر اور قطر کی ثالثی کی تجویز کو قبول کر لیا تھا لیکن اسرائیل نے اب تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ قتل عام اور نسل کشی کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حماس تحریک ثالثوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ ان خیالات کو ایک جامع معاہدے میں تبدیل کیا جا سکے جو ہمارے عوام کے مطالبات کو پورا کرے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا کہ انہوں نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کی تجویز پیش کی ہے اور اسرائیل کی مکمل منظوری کا دعویٰ کیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ وہ اب بھی ٹرمپ کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
حماس فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، غزہ پر جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ ایک جامع معاہدے پر پہنچنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم، نیتن یاہو نے ایسی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے جزوی انتظامات پر زور دیا ہے جس سے انہیں مذاکرات کے ہر مرحلے پر تاخیر اور نئی شرائط عائد کرنے کی اجازت ملے گی۔