آسٹریلیا نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز کے حوالے سے بیان" اسرائیل سے غداری کرنے والا کمزور سیاستدان " پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں تازہ اضافہ ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر داخلہ ٹونی برک نے کہا کہ نیتن یاہو کا یہ بیان ایک "مایوس رہنما کی جھنجھلاہٹ" کو ظاہر کرتا ہے۔
برک نے ABC کو بتایا، "طاقت کا اندازہ اس بات سے نہیں لگایا جاتا کہ آپ کتنے لوگوں کو تباہ کر سکتے ہیں یا کتنے بچوں کو بھوکا چھوڑ سکتے ہیں۔"
"ہم نے جو کچھ ان کے اقدامات میں دیکھا ہے وہ اسرائیل کو دنیا سے مزید الگ تھلگ کرنے کا عمل ہے، اور یہ ان کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔"
یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب کینبرا نے گزشتہ ہفتے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا، اس عمل میں فرانس، کینیڈا اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔
نیتن یاہو نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے البانیز پر "آسٹریلیا کے یہودیوں کو نظرِ انداز کرنے" کا الزام لگایا۔
حالیہ ایام میں دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں بگاڑ آیا ہے۔
ویزا منسوخی
پیر کے روز آسٹریلیا نے دائیں بازو کے اسرائیلی سیاستدان سمچا روتھمین کا ویزایہ کہتے ہوئے کہ ان کا دورہ " ملک میں تقسیم کو ہوا دے گا۔" منسوخ کر دیا تھا۔
منگل کو اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے آسٹریلوی سفارت کاروں کے ویزے منسوخ کر کے جواب دیا۔
نیتن یاہو کے گزشتہ شب ایکس پر نے تنازع کو مزید ہوا دی: "تاریخ البانیز کی اصلیت کو یاد رکھے گی: ایک کمزور سیاستدان جس نے اسرائیل سے غداری کی اور آسٹریلیا کے یہودیوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔"
آسٹریلیا کو طویل عرصے سے اسرائیل کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے، اور میلبورن کبھی اسرائیل کے باہر ہولوکاسٹ سے بچنے والوں کی سب سے بڑی فی کس کمیونٹی کا گھر تھا۔
لیکن غزہ میں نسل کشی نے تعلقات کو نئی شکل دی ہے۔
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن نے گزشتہ ہفتے کہا کہ نیتن یاہو نے "اپنا راستہ کھو دیا ہے،" کیونکہ اسرائیل خود کو بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا شکار پاتا ہے۔
نیوزی لینڈ نے بھی کہا کہ وہ فلسطین کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
آسٹریلیا اور اسرائیل کے تعلقات پہلے ہی گزشتہ سال سڈنی اور میلبورن میں ہونے والے اسلام دشمن حملوں کی لہر سے کشیدہ ہو چکے تھے۔