امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی الاسکا میں بات چیت مکمل ہو گئی ہے، تا ہم کسی معاہدے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
جمعہ کو جوائنٹ بیس ایلمینڈورف-رچرڈسن میں تقریباً تین گھنٹے کی ملاقات کے بعد مشترکہ بیان میں ، ایک پس منظر کے سامنے کھڑے ہو کر جس پر لکھا تھا، "امن کی جستجو"، ٹرمپ نے کہا، "بہت سے نکات پر ہم نے اتفاق کیا۔ میں کہوں گا کہ کچھ بڑے نکات ایسے ہیں جن پر ہم ابھی تک نہیں پہنچے، لیکن ہم نے کچھ پیش رفت ضرور کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "جب تک معاہدہ نہیں ہوتا، تب تک مزید کچھ نہیں کہا جا سکتا۔"
انہوں نے باقی نکات کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی اس بات کی تصدیق کی کہ وہ براہ راست یوکرین سے متعلق ہیں۔
پوتن نے روس کے موقف میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیا، اور تنازع کو "ملکی سلامتی کے بنیادی خطرات" سے جڑا ہوا قرار دیا، انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ایک پائیدار حل کے لیے "تنازع کی بنیادی وجوہات" کو حل کرنا ضروری ہے ۔ یہی وہی موقف ہے جو ماسکو یوکرین سے علاقے چھوڑنے، غیر مسلح ہونے، نیٹو کی رکنیت ترک کرنے، اور اپنی حکومت تبدیل کرنے کے مطالبات کے لیے استعمال کرتا ہے۔
پوتن نے کہا، "ہم توقع کرتے ہیں کہ کیف اور یورپی دارالحکومت اس عمل کو تعمیری طور پر دیکھیں گے اور معاملات میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔"

اگلی بار ماسکو میں
انہوں نے ٹرمپ کے بیان کہ اگر 2022 میں ٹرمپ صدر ہوتے تو جنگ شروع نہ ہوتی، اور کہا، "مجھے یقین ہے کہ واقعی ایسا ہی ہوتا۔"
ٹرمپ نے کہا کہ وہ نیٹو رہنماؤں، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی، اور دیگر کو بات چیت کے بارے میں بریف کریں گے۔
صحافیوں کو سوالات کا موقع نہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے پوتن سے کہا، "شاید بہت جلد آپ سے دوبارہ ملاقات ہو۔"
پوٹن نے انگریزی میں جواب دیا، "اگلی بار ماسکو میں۔"
ٹرمپ نے جواب دیا، "اوہ، یہ ایک دلچسپ بات ہے... اس پر مجھے تھوڑی تنقید کا سامنا ہو سکتا ہے، لیکن میں اسے ممکنہ طور پر ہوتا دیکھ سکتا ہوں۔"
سربراہی ملاقات کا آغاز پوٹن کے لیے ایک نمایاں گرمجوشی سے ہوا، جو امریکی پابندیوں کے تحت ہیں اور یوکرین میں جنگی جرائم کے حوالے سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب ہیں۔
ٹرمپ نے ان کا استقبال گرمجوش مصافحے، مسکراہٹوں، اور ایک سرخ قالین پر چلتے ہوئے کیا، جبکہ امریکی جنگی طیارے، بشمول ایک B-2 بمبار، اوپر پرواز کر رہے تھے۔
دونوں رہنما امریکی صدارتی لیموزین میں بغیر مترجم کے ساتھ سفر کرتے رہے — جو دو مخالف طاقتوں کے سربراہان کے لیے ایک غیر معمولی اقدام ہے۔
آگے کا راستہ
دریں اثنا انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے ہفتہ کی صبح رپورٹ کیا کہ کریملن کے ترجمان نے کہا ہے کہ پوتن اور ٹرمپ کے درمیان بات چیت نے دونوں ممالک کو تصفیہ کے طریقے تلاش کرنے کے عمل کو جاری رکھنے کا موقع دیا ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا، "گفتگو واقعی بہت مثبت تھی، اور دونوں صدور نے اس بارے میں بات کی۔ یہ وہی گفتگو ہے جو ہمیں تصفیہ کے اختیارات تلاش کرنے کے راستے پر اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کی اجازت دیتی ہے۔"
جب دونوں رہنما بات کر رہے تھے، جنگ جاری تھی، اور زیادہ تر مشرقی یوکرینی علاقوں میں فضائی حملے کے انتباہات جاری تھے۔ روس کے روستوف اور برائنسک علاقوں کے گورنروں نے اطلاع دی کہ ان کے کچھ علاقے یوکرینی ڈراون حملوں کی زد میں ہیں۔
زیلنسکی نے ماسکو کو کوئی علاقہ باضابطہ طور پر دینے سے انکار کر دیا ہے اور امریکہ کی حمایت یافتہ سلامتی کی ضمانت بھی طلب کر رہے ہیں۔
سربراہی ملاقات پر کیف کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
یوکرین کے حزب اختلاف کے قانون ساز اولیکسی گونچارینکو نے ٹیلیگرام پر کہا، "ایسا لگتا ہے کہ پوتن نے اپنے لیے مزید مہلت حاصل کر لی ہء۔ کوئی جنگ بندی یا کشیدگی میں کمی پر اتفاق نہیں ہوا۔"
چیک وزیر خارجہ جان لیپاووسکی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ٹرمپ کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن پوتن کی معاہدے میں دلچسپی پر شک کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "اگر پوتن امن کے لیے مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہوتے، تو وہ آج پورے دن یوکرین پر حملے نہ کرا رہے ہوتے۔"
ماسکو اور کیف دونوں تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن ہزاروں شہری اس تنازع میں ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت یوکرینی ہے، اور جنگ نے دونوں طرف سے دس لاکھ سے زیادہ افراد کو ہلاک یا زخمی کیا ہے۔