بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ہفتے کے روز کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تجارتی مذاکرات جاری ہیں، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نئی دہلی اپنی اقتصادی "سرخ لکیروں" کا دفاع کرے گا۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکی مصنوعات پر اضافی بھارتی محصولات کا دوسرا مرحلہ نافذ ہونے والا ہے۔
نئی دہلی میں اکنامک ٹائمز فورم سے خطاب کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا کہ بھارت اہم شعبوں کے تحفظ کے لیے مضبوطی سے کھڑا رہے گا۔ انہوں نے کسانوں اور چھوٹے پیمانے کے کاروبار کے مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "مذاکرات میں ہماری کچھ سرخ لکیریں ہیں، جنہیں برقرار رکھا جائے گا اور ان کا دفاع کیا جائے گا،" ۔
بھارتی برآمدات کو اضافی محصولات کا سامنا ہے جو 50 فیصد تک ہو سکتی ہیں — جو واشنگٹن کی جانب سے عائد کی جانے والی سب سے زیادہ شرحوں میں سے ایک ہے — یہ اقدام نئی دہلی کی روسی تیل کی خریداریوں میں اضافے کے جواب میں کیا گیا ہے۔ 25 فیصد محصول پہلے ہی نافذ ہے، جبکہ مزید 25 فیصد 27 اگست کو نافذ ہونے والے ہیں۔
25 سے 29 اگست تک امریکی تجارتی مذاکرات کاروں کے نئی دہلی کے دورے کا منصوبہ اچانک منسوخ کر دیا گیا، جس سے محصولات میں تاخیر یا نرمی کی امیدیں مدھم ہو گئیں۔
مذاکرات کی ناکامی
دنیا کی سب سے بڑی اور پانچویں بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی مذاکرات اس سال کے اوائل میں اس وقت ناکام ہو گئے جب بھارت نے اپنی زرعی اور ڈیری مارکیٹوں کو کھولنے سے انکار کر دیا — جو طویل عرصے سے تنازعہ کا باعث رہے ہیں۔ دو طرفہ تجارت اس وقت 190 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
جے شنکر نے نئی دہلی کی توانائی کی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی روسی تیل کی خریداریوں پر امریکی تنقید غیر منصفانہ ہے۔
"اگر دلیل تیل ہے، تو بڑے خریدار موجود ہیں۔ اگر دلیل یہ ہے کہ روس کے ساتھ کون زیادہ تجارت کر رہا ہے، تو انہوں نے چین اور یورپی یونین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا بڑے تاجر موجود ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ محصولات کے عوامی اعلان سے پہلے بھارت کی روس سے تیل کی درآمدات کا معاملہ واشنگٹن کے ساتھ ماضی کے تجارتی مذاکرات میں کبھی نہیں اٹھایا گیا تھا ۔
بھارت پر اثرات
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدامات بھارت پر بھاری اقتصادی بوجھ ڈال سکتے ہیں۔ کیپیٹل اکنامکس کا اندازہ ہے کہ اگر مکمل محصولات نافذ ہو گئے اور برقرار رہے، تو 2025 اور 2026 میں بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں 0.8 فیصد پوائنٹس کی کمی ہو سکتی ہے۔
"طویل مدتی نقصان اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ زیادہ محصولات بھارت کی عالمی مینوفیکچرنگ مرکز کے طور پر کشش کو متاثر کر سکتے ہیں" ۔
جے شنکر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی اور خارجہ پالیسی کے اعلانات کو روایت سے ہٹ کر قرار دیا۔
انہوں نے کہا"ہمارے پاس ایسا امریکی صدر نہیں رہا جو اپنی خارجہ پالیسی کو اتنے عوامی انداز میں چلاتا ہو جتنا موجودہ صدر کر رہے ہیں۔"