جرمنی کے روزنامہ فرینکفرٹ الگمائنے زیتنگ 'ایف اے زیڈ' نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فون کالوں کا جواب نہیں دے رہے۔
ایف اے زیڈ نے شائع کردہ خبر میں دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ نے چار دفعہ مودی سے رابطے کی کوشش کی لیکن مودی نے ان کی فون کالیں قبول نہیں کیں۔ یہ روّیہ، روسی تیل کی برآمد بند کروانے کے لئے امریکی دباو کے مقابل ، مودی کے "غصے" اور "احتیاط" کا اظہار ہے۔
مذکورہ ٹیلی فون کالیں تجارتی کشیدگی میں شدید اضافے کے پس منظر میں کی گئی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے، روسی تیل کی درآمدات بند نہ کرنے کی وجہ سے، بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے جو برازیل کے علاوہ کسی بھی ملک پر عائد کیا گیا بلند ترین ٹیرف ہے۔
اسی دوران، نئی دہلی نے رعایتی نرخوں پر روسی تیل کی خریداری میں بھی اضافہ کر دیا ہے جو واشنگٹن کی ناراضگی میں مزید اضافے کا سبب بنا ہے۔
ایک سوچا سمجھا سفارتی اقدام
ایف اے زیڈ نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی کالیں قبول نہ کرنا مودی کا سوچا سمجھا قدم ہے جس کا مقصد ٹرمپ کے مخصوص مذاکراتی انداز سے بچنا ہے۔
ٹرمپ کسی سرکاری معاہدے کے نفاذ سے قبل عوامی سطح پر معاہدہ طے پانے کے دعوے کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ویتنام اس کی ایک مثال ہے لہٰذا مودی اس جال میں نہیں پھنسنا چاہتے"۔
سیاسی محقق ' مارک فریزر' نے کہا ہےکہ امریکہ کی، چین کے خلاف بھارت سے مدد کی توقع پر مبنی، انڈو۔پیسفک حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے۔
فریزر کے مطابق "بھارت نے کبھی بھی چین کے مقابل امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا ارادہ نہیں کیا۔"
علاوہ ازیں دہلی کے قریب ٹرمپ خاندان کے لگژری ٹاور منصوبے پر تنقید یں، ٹرمپ کا بھارت اورپاکستان کے درمیان جنگ بندی کا سہرا اپنے سر لینا اور اوول آفس میں پاکستان کے آرمی چیف کی میزبانی ایسے پہلو ہیں جنہوں نے نئی دہلی کی اشتعال انگیزی میں واضح اضافہ کیا ہے۔
تاحال آخری رابطہ
دونوں رہنماؤں کے درمیان آخری تصدیق شدہ رابطہ 17 جون کو ہوا جب مودی نے امریکہ کی طلب پر صدر ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔
یہ ملاقات پہلگام حملوں اور بھارت کے آپریشن سندور کے بعد کی گئی تھی۔
بھارت کی حکمت عملی میں تبدیلی
ایف اے زیڈ نے کہا ہے کہ مذکورہ پیش رفتیں بھارت کی خارجہ پالیسی میں ایک وسیع تر تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس تبدیلی کے مطابق نئی دہلی انتظامیہ صرف امریکہ پر انحصار کی بجائے اپنے اسٹریٹجک شراکت داروں کو متنوع بنا رہی ہے اور چین اور روس جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کو خاموشی سے مضبوط کر رہی ہے ۔
یہ تبدیلی بھارت کی، تیانجن میں متوقع ،شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کے دور میں سامنے آئی ہے۔