ہزاروں افراد منگل کے روز بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں احتجاج کی پہلی سالگرہ منانے کے لیے یکجا ہو رہے ہیں ، ان احتجاجی مظاہروں میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ لوگ ریلیوں، کنسرٹس اور دعائیہ اجتماعات میں شرکت کریں گے۔
یہ تقریبات ایک ایسے اعلامیے پر اختتام پذیر ہوں گی جسے جمہوری اصلاحات کے لیے ایک روڈ میپ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ سیاسی سفر اقتصادی مشکلات اور جبر کے خلاف بغاوت سے شروع ہو کر نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت کے قیام تک پہنچا۔
یونس نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا، "ہم مل کر ایک ایسا بنگلہ دیش بنائیں گے جہاں ظلم دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔" انہوں نے ان افراد کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
ایک ایسے وقت میں جب تیزی سے منتقلی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے اور محنت کشوں کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے ، یونس نے کہا کہ ایک پرامن، منصفانہ اور شفاف انتخاب اگلے سال کے اوائل میں منعقد ہو سکتا ہے، انہوں نے مکمل جمہوری حکمرانی کی بحالی کا وعدہ کیا ۔
انہوں نے مزید کہا، "گرے ہوئے آمر اور ان کے خود غرض اتحادی اب بھی سرگرم ہیں،"انہوں نے بغاوت کے فوائد کے تحفظ کے لیے اتحاد کی اپیل کی، ان کی حکومت سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ اصلاحاتی مذاکرات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی عبوری حکومت نے وسیع پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کیا ہے، جبکہ "جولائی کے قتل عام" کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

پولیس پورے دارالحکومت میں ہائی الرٹ پر تھی، اور بکتر بند گاڑیاں سڑکوں پر گشت کر رہی تھیں تاکہ حسینہ کی کالعدم قرار دی گئی عوامی لیگ کی جانب سے دن کی تقریبات میں خلل ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔
حسینہ نے عوام کے نام ایک کھلے خط میں کہا، "یہ سالگرہ غور و فکر کا دن نہیں بلکہ ایک روشن کل کے لیے پکار ہونی چاہیے۔" انہوں نے مزید کہا کہ وہ کبھی بھی وزیر اعظم کے فرائض سے مستعفی نہیں ہوئیں۔
"بنگلہ دیش نے پہلے بھی مشکلات پر قابو پایا ہے، اور ہم دوبارہ اٹھیں گے، مضبوط، زیادہ متحد، اور ایک ایسی جمہوریت بنانے کے لیے زیادہ پرعزم جو واقعی اپنے عوام کی خدمت کرے۔"
یونس کی جانب سے دن کے آخر میں اعلان کردہ "جولائی اعلامیہ" 2024 کی طلبہ قیادت میں بغاوت اور آمرانہ حکمرانی سے جمہوری تجدید کی جانب منتقلی کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔
کچھ مخالفت کے باوجود، یہ بڑے سیاسی گروپوں کی حمایت حاصل ہے، جن میں سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) بھی شامل ہے۔
حامی اس چارٹر کو ادارہ جاتی اصلاحات کی بنیاد کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ قانونی فریم ورک یا پارلیمانی اتفاق رائے کی عدم موجودگی میں اس کا اثر زیادہ تر علامتی ہو سکتا ہے۔