روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے نیٹو ممالک کو مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائلوں پر پابندی سے ماسکو کے انخلا کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
روسی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین میدویدیف نے پیر کے روز کہا کہ درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تنصیب پر عائد پابندی کے خاتمے سے متعلق روسی وزارت خارجہ کا بیان نیٹو ممالک کی روس مخالف پالیسی کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک نئی حقیقت ہے جس کا سامنا ہمارے تمام مخالفین کو کرنا پڑے گا ہمیں مزید اقدامات کی توقع ہے۔
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ماسکو انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (آئی این ایف) معاہدے کے تحت 'پہلے سے اختیار کی گئی خود ساختہ قدغنوں کا پابند نہیں ہے۔
1987 کے معاہدے کے تحت امریکہ اور سوویت یونین کو 500 سے 5500 کلومیٹر تک مار کرنے والے اپنے تمام جوہری اور روایتی بیلسٹک اور کروز میزائلوں کو ختم اور مستقل طور پر ختم کرنا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران امریکہ نے 2019 میں روس کی عدم تعمیل کا حوالہ دیتے ہوئے معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی تھی جبکہ روس نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
ماسکو کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے میدویدیف کے جواب میں 'روس کے قریب' دو امریکی جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم دیا تھا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کے روز کہا کہ روس جوہری معاملات سے متعلق کسی بھی بیان کے بارے میں "بہت محتاط" ہے اور ماسکو اس سلسلے میں "ذمہ دارانہ موقف" اختیار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس جوہری عدم پھیلاؤ کے موضوع پر بہت محتاط ہے۔ اور یقینا، ہم سمجھتے ہیں کہ ہر کسی کو جوہری بیان بازی کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہئے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے یوکرین میں جنگ ختم نہ کرنے کی صورت میں روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی اور اتوار کے روز کہا کہ ان کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف امریکی پابندیوں کی مہلت سے قبل اس ہفتے روس کا دورہ کریں گے