وینزویلا نے صدر نکولس مادورو کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر انعام دگنا کرنے کے امریکی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'افسوسناک' اور 'مضحکہ خیز' قرار دیا ہے۔
وینزویلا کے وزیر خارجہ یوان گل نے ٹیلی گرام پر لکھا کہ یہ سب سے مضحکہ خیز بات ہے ۔
امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی نے کہا کہ واشنگٹن اب مادورو کی گرفتاری کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر 50 ملین ڈالر کی پیشکش کرے گا جو کسی بھی موجودہ عالمی رہنما کو دیا جانے والا سب سے بڑا انعام ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ مادورو "دنیا کے سب سے بڑے منشیات اسمگلروں میں سے ایک" اور امریکی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔
ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بونڈی نے الزام عائد کیا کہ مادورو "جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں" جن میں وینزویلا کے ٹرین ڈی اراگوا گینگ اور میکسیکو کا سینالوا کارٹل شامل ہیں، اور ان پر بڑے پیمانے پر منشیات کی اسمگلنگ اور منظم جرائم کی کارروائیوں کو منظم کرنے کا بھی الزام لگایا۔
اٹارنی جنرل نے الزام عائد کیا کہ مادورو سے منسلک 700 ملین ڈالر سے زائد کے اثاثے امریکہ نے ضبط کر لیے ہیں جن میں دو طیارے اور نو گاڑیاں شامل ہیں۔
مادورو پر پہلے ہی 2020 کے امریکی وفاقی مقدمے میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے جس میں ان پر منشیات کی اسمگلنگ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
امور خارجہ نے ابتدائی طور پر اُس وقت 15 ملین ڈالر کے انعام کی پیش کش کی تھی ، بعد میں اسے بڑھا کر 25 ملین ڈالر کردیا گیا تھا۔
وینزویلا کی حکومت، جو طویل عرصے سے امریکہ کے ساتھ اختلافات کا شکار ہے، کا کہنا ہے کہ انعامات میں اضافہ واشنگٹن کی جانب سے اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ایک اور کوشش ہے۔
امریکہ مادورو پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بدعنوانی اور سیاسی مخالفت کو دبانے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ وینزویلا نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے امریکی پابندیوں کو 'معاشی جنگ' قرار دیا ہے جس کا مقصد اس کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔
تیل کے وسیع ذخائر کی وجہ سے لاطینی امریکہ کا امیر ترین ملک وینزویلا کئی سالوں سے امریکی معاشی اور سیاسی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد غربت اور افراط زر کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔