غزہ کے سرکاری میڈیا آفیس نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے علاقے کی مکمل ناکہ بندی 103 ویں دن میں داخل ہو چکی ہے تو اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں فاقہ کشی کے باعث کم از کم 67 بچے جاں بحق ہو ئے ہیں۔
میڈیا آفس نے ہفتے کے روز ایک بیان میں خبردار کیا کہ یہ تعداد ڈرامائی طور پر بڑھ سکتی ہے، کیونکہ اگر خوراک، ادویات اور ایندھن کی فراہمی جاری نہ کی گئی تو پانچ سال سے کم عمر کے 6,50,000 سے زائد بچے شدید اور جان لیوا غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
بیان میں کہا گیا، "اب بھوک ان جانوں کو لے رہی ہے جنہیں بموں نے نہیں لیا،" جاری محاصرے کو جدید تاریخ میں اجتماعی سزا کی "انتہائی بد ترین شکلوں میں سے ایک" ہے۔
میڈیا آفس نے کہا کہ "صرف گزشتہ تین دنوں میں درجنوں اضافی اموات ریکارڈ کی گئی ہیں، کیونکہ اسرائیلی افواج آٹے، بچوں کی خوراک ، اور اہم غذائی و طبی سامان کی فراہمی کو روک رہی ہیں۔"
زندگی اور موت کی کشمکش
میڈیا آفس نے اسرائیل پر دانستہ طور پر اجتماعی فاقہ کشی پالیسی اپنانے کا الزام عائد کیا۔
اس وقت غزہ میں تقریباً 12 لاکھ 50 ہزار افراد شدید فاقہ کشی کے شکار ہیں، جبکہ 96 فیصد آبادی، جن میں ایک ملین سے زائد بچے شامل ہیں، شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
آفس نے اسرائیل کو ایک "منظم اور منصوبہ بند فاقہ کشی مہم" کا مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کے بین الاقوامی حمایتیوں پر ان کی حمایت یا خاموشی اختیار کرنے پر قانونی اور اخلاقی الزام عائد کیا۔
میڈیا آفس نے کہا، " خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں : یہ پوری دنیا کی نظروں کے سامنے ایک اجتماعی سزائے موت ہے۔"
"فوری عالمی مداخلت اختیاری نہیں؛ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔"