آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے بدھ کے روزجاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی پٹّی میں لوگ بھوک اور موت کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ "ہرگز قابلِ قبول نہیں" ہے۔
اے بی سی کے لئے انٹرویو میں البانیز نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ اسرائیلی اقدامات اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا "دفاع" کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا ہے کہ "مارچ میں اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ امداد کی ناکہ بندی کرے گا اور آج ہم اس کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت غزہ ایک انسانی المیے سے گزر رہا ہے"۔
اس سوال کے جواب میں کہ “کیا اسرائیل کا 'قصداً' پیدا کردہ 'قحط 'جنگی جرم ہے؟” البانیز نے کہا ہے کہ "یہ صورتحال کسی بھی صورت میں بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی"۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "ذرائع ابلاغ کے غزّہ میں داخلے پر پابندی کے باوجود انسان ہر شام اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر وہاں کے حالات دیکھ رہے ہیں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ غزّہ میں انسان نہ صرف شدید مصائب، بھوک اور جانی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ خوراک اور پانی تک رسائی کی کوشش میں قتل بھی کئے جا رہے ہیں۔ یہ دورِ جاہلیت نہیں 2025 ہے اور اس دور میں یہ وحشت و بربریت بالکل بھی قابلِ قبول نہیں ہے"۔
البانیز نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات کا نتیجہ معصوم جانوں کے نقصان، مفلسی اور تشدّد کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اسی وجہ سے یہ اقدامات "قطعی طور پر ناقابل قبول" ہے۔
وزیرِ اعظم نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ آسٹریلیا ستمبر میں متوقع اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں فلسطین کو تسلیم کرے گا۔
واضح رہے کہ دو ملین آبادی والے غزہ پر 22 ماہ سے مسّلط کردہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کو بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے ۔
اسرائیل نے دو ماہ سے غزّہ پر خوراک کی ناکہ بندی کر رکھی ہے وجہ سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے علاقے میں بڑے پیمانے کے اور انسانی ساختہ قحط کے خطرے پر تشویش ظاہر کی ہے ۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق، جنوری 2025 سے اب تک غذائی قلت کی وجہ سے 148 فلسطینیوں کی موت واقع ہو چکی ہے ۔ دوسری طرف عالمی خوراک پروگرام ' ڈبلیو ایف پی 'نے اگست میں جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ غزہ میں بھوک اور غذائی قلت جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ چُکی ہے۔
ڈبلیو ایف پی نے کہا ہے کہ "آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کئی دنوں سے خوراک سے محروم ہے۔ 300,000 بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ضرورت کے مطابق امدادی ٹرکوں کو علاقے میں داخلے کی اجازت نہ دیئے جانے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے ۔