ٹی آر ٹی نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی حملوں سے تباہی کی فضائی تصاویر حاصل کی ہیں، جو اس تباہی کی حد کا واضح مظہر ہے۔
رپورٹر مجاہد آئیدیمر اور کیمرہ مین عثمان ایکن نے اردنی امدادی فضائی پرواز کے دوران مناظر کو دستاویزی شکل دی، جن میں غزہ کو مکمل طور پر تباہ شدہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی فضائی، زمینی اور بحری حملوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور پورے کے پورے محلے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
مقامی صحت حکام کے اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں کم از کم 61,776 فلسطینی ہلاک اور 154,906 زخمی ہو چکے ہیں۔ مزید ہزاروں افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
انسانی بحران کو کئی ماہ سے جاری ناکہ بندی نے مزید سنگین بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے خوراک، پانی، دوا اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی شدید متاثر ہوئی ہے۔
امدادی ادارے قحط جیسی صورتحال کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں، جہاں اب تک بھوک سے کم از کم 239 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 106 بچے شامل ہیں۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید پانچ افراد — جن میں چار بچے شامل ہیں — بھوک سے جاں بحق ہو گئے۔
اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کے مطابق، غزہ کے 88 فیصد بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
علاقے کے 23 لاکھ رہائشیوں میں سے اکثریت — تقریباً 20 لاکھ افراد — بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی بار بار نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
بے گھر خاندان زیادہ تر گنجان آباد اسکولوں یا عارضی خیموں میں پناہ لے رہے ہیں، جہاں صفائی کے ناقص انتظامات، صاف پانی کی قلت اور بیماریوں کا تیزی سے پھیلاؤ ہو رہا ہے۔
اسرائیلی افواج پر امدادی تقسیم کے مقامات اور عارضی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق، مئی کے آخر سے ان مقامات پر حملوں میں کم از کم 1,881 افراد ہلاک اور تقریباً 13,900 زخمی ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے بارہا کہا ہے کہ جنگ میں بھوک اور محرومی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بین الاقوامی قوانین کے تحت ممنوع ہے۔
وہ خبردار کرتے ہیں کہ غزہ کی صورتحال اب مکمل انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔