تحریک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ "حماس اب بھی، 18 اگست کو ثالثوں کی پیش کردہ اور حماس کی قبول کردہ تجویز پر اسرائیل کے جواب کا، انتظار کر رہی ہے "۔
حماس نے اس بات کا اعادہ کیا ہےکہ وہ ایک جامع معاہدے کے لیے تیار ہے جس کے تحت تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں بند ان تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن کی رہائی پر اتفاق ہو چکا ہے۔
منصوبے میں غزہ میں نسل کشی کے خاتمے، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، ضروری امداد کی فراہمی کے لیے گزرگاہوں کو دوبارہ کھولنے اور علاقے کی تعمیر نو کے آغاز کی شقیں بھی شامل ہیں۔
حماس نے کہا ہےکہ ہم نے یہ فیصلہ، اسرائیلی حکام کے ایک تواتر سے پوچھے گئے اور "بعد میں کیا ہوگا" کے الفاظ پر مبنی سوال کے براہ راست جواب کے طور پر کیا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی میڈیا نے کہا ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہوجزوی معاہدے کی کوشش سے ہٹ کر ایک جامع معاہدے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بدھ کے روز کہا تھا کہ "غزہ میں قید تمام اسرائیلی فوجیوں کو رہا کیا جانا چاہیے"۔
حماس اور فتح نے گذشتہ ماہِ دسمبر میں قاہرہ میں منعقدہ مذاکرات میں غزہ کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا تھا۔لیکن فلسطین انتظامیہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور اصرار کیا تھا کہ علاقہ اس کے زیرِ انتظام ہونا چاہیے۔
غزہ میں قتل و غارت نے علاقے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔
اسرائیل نے دو سال سے غزّہ پر مسلط کردہ جنگ میں 63,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر دیا ، پوری آبادی کو بے گھر کر دیا اور علاقے کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
حماس نے کہا ہےکہ وہ "تکنیکی ماہرین کی ایک قومی آزاد انتظامیہ" کے قیام کے لیے پرعزم ہے جو فوری طور پر تمام حکومتی شعبوں کی ذمہ داری سنبھالے گی۔