نیپال کے سرکاری ٹیلی ویژن نے رپورٹ کیا ہے کہ کٹھمنڈو میں پولیس نے حکومت مخالف مظاہرین پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے
حکام نے ان مہلک مظاہروں کے بعد دارالحکومت کٹھمنڈو میں کرفیو نافذ کر دیا۔
سرکاری ٹی وی نے بتایا، یہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ یہ مظاہرین پیر کے روز پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ مظاہرہ سوشل میڈیا پر پابندی اور مبینہ حکومتی بدعنوانی کے خلاف کیا جا رہا تھا۔
پیر کے روز نیپال کے دارالحکومت میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے تاکہ حکام کے اس فیصلے پر غصہ ظاہر کریں جس کے تحت فیس بک، ایکس اور یوٹیوب سمیت زیادہ تر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں رجسٹریشن اور حکومتی نگرانی کے لیے تیار نہیں تھیں۔
مظاہرین نے خاردار تاروں کو عبور کیا اور پارلیمنٹ کی عمارت کو گھیر لیا، جس کے نتیجے میں فسادی پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا، لیکن مظاہرین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے پولیس پارلیمنٹ کمپلیکس کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہو گئی۔
صورتحال کشیدہ رہی اور حکومت نے پیر کے روز پارلیمنٹ، حکومتی سیکریٹریٹ، صدارتی محل اور شہر کے اہم حصوں میں کرفیو کا اعلان کیا۔
مظاہرین نے نعرے لگائے، "سوشل میڈیا پر پابندی ختم کرو، بدعنوانی ختم کرو، سوشل میڈیا نہیں۔" مظاہرین نے سرخ اور نیلے قومی پرچم لہرائے۔
مقامی انگریزی روزنامہ کٹھمنڈو پوسٹ نے اسپتال کے عہدیدار ڈاکٹر دیپندرا پانڈے کے حوالے سے بتایا۔
نیشنل ٹراما سینٹر لائے گئے سات مظاہرین ہلاک ہو گئے، جبکہ 10 دیگر افراد سر اور سینے میں گولی لگنے سے شدید زخمی حالت میں تھے۔
انادولو ایجنسی کیے مطابق 20 سے زائد دیگر افراد کا علاج جاری ہے۔ ایورسٹ اسپتال میں تین مظاہرین ہلاک ہو گئے، جہاں 50 سے زائد دیگر افراد کا علاج جاری ہے، جن میں سے چار کی حالت تشویشناک ہے۔
مزید چار افراد کو مختلف اسپتالوں میں مردہ حالت میں لایا گیا، جن کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی۔
پیر کے مظاہرے کو "جنریشن زیڈ کا احتجاج" کہا گیا، جو عام طور پر 1995 سے 2010 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کو کہا جاتا ہے۔
حکومت نے کہا کہ نیپال میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے تقریباً دو درجن سوشل نیٹ ورک پلیٹ فارمز کو بار بار نوٹس دیا گیا تھا کہ وہ اپنی کمپنیوں کو ملک میں باضابطہ طور پر رجسٹر کریں۔ جو کمپنیاں رجسٹر کرنے میں ناکام رہیں، انہیں گزشتہ ہفتے سے بلاک کر دیا گیا ہے۔
ٹک ٹاک، وائبر اور دیگر تین پلیٹ فارمز نے رجسٹریشن کروا لی ہے اور بغیر کسی رکاوٹ کے کام کر رہے ہیں۔
حکام کا یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک بل بحث کے لیے بھیجا، جس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ سوشل پلیٹ فارمز "مناسب طریقے سے منظم، ذمہ دار اور جوابدہ" ہوں۔
اس میں کمپنیوں سے یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ وہ ملک میں ایک رابطہ دفتر یا پوائنٹ مقرر کریں۔
اس بل کو وسیع پیمانے پر سنسرشپ کا آلہ اور آن لائن احتجاج کرنے والے حکومتی مخالفین کو سزا دینے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ حقوق کے گروپوں نے اسے آزادی اظہار کو محدود کرنے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی کوشش قرار دیا ہے۔
نیپال نے 2023 میں ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر "سماجی ہم آہنگی، خیرسگالی کو متاثر کرنے اور غیر مہذب مواد پھیلانے" کے الزام میں پابندی عائد کی تھی۔
یہ پابندی گزشتہ سال اس وقت ختم کی گئی جب ٹک ٹاک کے عہدیداروں نے مقامی قوانین کی پاسداری کا وعدہ کیا۔ ان قوانین میں 2018 میں منظور شدہ فحش ویب سائٹس پر پابندی بھی شامل ہے۔