امریکہ سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو، وفاقی ملازمین کی تعداد میں بڑے پیمانے پر چھانٹی کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے ساتھ اہم سرکاری اداروں کے ہزاروں ملازمین کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ سُپریم کورٹ کا منگل کے روز سنایا گیا یہ فیصلہ ،صدر ٹرمپ کے ماہِ فروری میں جاری کردہ اور وفاقی بیوروکریسی کی تشکیلِ نو کے دائرہ کار میں وزارتی عملے میں کمی کے لئے تیاری کے مطالبے پر مبنی، ایک ایگزیکٹو آرڈر سے منسلک ہے۔
جن وزارتوں میں چھانٹیوں کا امکان ہے ان میں وزارتِ زراعت، وزارتِ خارجہ، وزارتِ خزانہ، وزارتِ صحت اوروزارت برائے امورِ ریٹائر عسکری عملہ سمیت متعدد وزارتیں شامل ہیں۔
عدالت کے، اسباب کی توضیح کے بغیر اور غیر دستخط شدہ ،حکم میں کہا گیا ہےکہ ایگزیکٹو آرڈر صدر کے قانونی اختیارات کے دائرے میں آتا ہے اوراس موضوع پر ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف "غالباً کامیاب رہے گا"۔
اس فیصلے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا ہے کہ جس نے مذکورہ منصوبے کو عارضی طور پر روکنے کا حکم سُنایا تھا۔یہ پیش رفت، اپنے انتظامی اختیارات کو وسیع کرنے کی کوششوں میں، ٹرمپ کی ایک اور کامیابی کے حیثیت سے ریکارڈ کا حصّہ بن گئی ہے۔سپریم عدالت حال ہی میں ان کی، مہاجرت، فوجی قوانین، اور وفاقی اختیارات سے متعلقہ متنازعہ پالیسیوں کی بھی حمایت کر چُکی ہے۔
منگل کے فیصلے نے امریکی ڈسٹرکٹ جج سوسن الیسٹن کے مئی کے حکم کو کالعدم کر دیا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ کانگریس کی منظوری کے بغیر بڑے پیمانے پر برطرفیاں نہیں کی جا سکتیں۔
الیسٹن نے جاری کردہ فیصلے کی توضیح میں لکھا تھا کہ "جیسا کہ تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ صدر، وفاقی محکموں میں وسیع پیمانے کا ردوبدل صرف کانگریس کی اجازت کی صورت میں ہی کر سکتا ہے"۔
اگرچہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ٹرمپ کو اپنے منصوبے جاری رکھنے کی اجازت دی ہے لیکن ججوں نے سرکاری ملازمتوں سے برطرفی کی تجاویز کی قانونی حیثیت پر کوئی رائے نہیں دی۔
وزارتوں کو اب بھی مزدور یونینوں، وفاقی تحفظات، اور قانونی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
'حتمی کامیابی'
وائٹ ہاؤس نے اس فیصلے کو صدر اور ان کی انتظامیہ کے لیے ایک "حتمی کامیابی" قرار دیا اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ پوری وفاقی حکومت میں "موثر کارکردگی" کی یقین دہانی کی خاطر ٹرمپ کے اختیار کی توثیق کرتا ہے۔
وفاقی ملازمین کی یونینوں اور مقدمہ دائر کرنے والے وکالت گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ برطرفیاں عوامی خدمات کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
انہوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ "یہ فیصلہ ان خدمات کو سنگین خطرے میں ڈال رہا ہے جن پر امریکی عوام انحصار کرتے ہیں۔"
واضح رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنوری میں ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے تقریباً 2,60,000 سرکاری ملازمین مستعفی ہوچکے ، ریٹائر ہو چکے ہیں یا برطرف کیے جا چکے ہیں۔ وزارتی محکموں میں یہ مہم، محکمہ حکومتی کارکردگی کے حالیہ سربراہ، ایلون مسک کی قیادت میں چلائی گئی ہے ۔
مسک کے احکامات سے، امریکہ بین الاقوامی ترقی ایجنسی 'یو ایس اے آئی ڈی' اور صارف مالیاتی تحفظ بیورو میں،بڑے پیمانے پر چھانٹیاں کی جا چکی ہیں اور اس دوران وفاقی آئی ٹی نظام اور آپریشنوں کا کنٹرول سیاسی تقرریوں کے ذریعے بھرتی کی گئی ٹیموں نے سنبھال لیا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی نے ایجنسیوں کے اندر افراتفری پیدا کر دی ہے، جس کے نتیجے میں سوشل سیکیورٹی درخواستوں، سابقہ فوجیوں کےمفادات، اور شعبہ ریگولیٹری نگرانی میں کام جمع ہو رہا ہے اور اداروں میں افراتفری مچ رہی ہے۔