چین کے صدر شی جن پنگ نے منگل کے روز بیجنگ میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ نئے مذاکراتی دورکے آغاز میں بحیثیت ایک "پرانے دوست" کے پوتن کا خیر مقدم کیاہے۔یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں کئے گئے ہیں کہ جب امریکہ کے ساتھ کشیدگی عروج پر ہے۔
پوتن نے شی کو "عزیز دوست" کہہ کر مخاطب کیا اور کہا ہےکہ منگل کے روز ماسکو اور بیجنگ کے تعلقات "ایک بے مثال بلند سطح پر" پہنچ چکے ہیں۔
دونوں صدور نے باضابطہ ملاقات کے بعد اپنے معاونین ِ اعلیٰ کے ساتھ چائے کے دوران بھی گفتگو جاری رکھی۔ یہ روّیہ اس اہمیت کا عکاس ہے جو دونوں صدور اپنے ذاتی تعلقات کو دیتے ہیں۔
شی۔پوتن مذاکرات پیر کے روز تیانجن میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے بعد ہوئےہیں۔ اس کے علاوہ شی اور پوتن نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر علاقائی رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے۔
شی ،بدھ کے روز ،بیجنگ میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بڑی فوجی پریڈ کی قیادت کریں گے۔
پوتن نے جاپانی حملوں کے دوران چین کے لئے سوویت حمایت کا حوالہ دیا اور کہا ہے کہ "ہم اس وقت بھی ساتھ تھے اور آج بھی ساتھ ہیں" ۔
امریکہ کے ساتھ تجارتی کشیدگی
اگرچہ بیجنگ، یوکرین جنگ میں غیر جانبداری کا موقف پیش کرتا ہے لیکن مغربی پابندیوں کے باوجود تجارتی بہاؤ کو برقرار رکھ کر ماسکو کے لیے ایک اقتصادی سہارا بن گیا ہے۔
امریکی حکام نے کچھ چینی کمپنیوں پر روس کی فوجی صنعت کی مدد کا الزام لگایا ہے۔
ایس سی او اجلاس نے بدلتے ہوئے اتحادوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت پر بھاری محصولات نے نئی دہلی کو ماسکو اور بیجنگ دونوں کے قریب کر دیا ہےباوجودیکہ مودی نے چین کی مارچ پاسٹ پریڈ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔
شی اور پوتن نے ، دو طرفہ اجلاس سے قبل، چین اور روس کے درمیان اسٹریٹجک محل وقوع کے حامل ملک 'منگولیا' کے صدر خورلسوخ اوخنا کے ساتھ ایک سہ فریقی ملاقات کی ۔
ملاقات سے متعلق پوتن نے کہا ہے کہ روس، چین اور منگولیا تینوں ممالک مشترکہ مفادات کے حامل"اچھے ہمسائے" ہیں ۔
منگولیا نے 2024 میں اس وقت بین الاقوامی توجہ حاصل کی جب اس نے پوتن کے ریاستی دورے کے دوران بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ پر انہیں گرفتار کرنے کی اپیلوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔