انڈونیشیا کے دارالحکومت کی سڑکیں جمعہ کے روز پرسکون تھیں، جب کہ ملک بھر میں ایک ہفتے سے زیادہ جاری رہنے والے مظاہروں، جن میں سے کچھ پرتشدد تھے، کے بعد ملک میں عیدمیلاالنبی کی چھٹی منائی گئی ۔
ملک میں کشیدگی ابتدا میں اراکینِ پارلیمنٹ کے رہائش الاؤنس پر عوام کے رد عمل کے ساتھ پیدا ہوئی ، جس کے خلاف انسانی حقوق کے گروہوں کی قیادت میں طلباء اور محنت کشوں اور تھی نے احتجاجی ریلیاں نکالیں ، لیکن حالات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب جکارتہ میں ایک ریلی کے دوران پولیس کی گاڑی نے ایک رکشہ ڈرائیو کو گولی مار کر مار ڈالا۔
مظاہرے تیزی سے دیگر علاقوں تک پھیل گئے۔
اراکینِ پارلیمنٹ کے مراعات اور پولیس کے حربے
جمعرات کو طلباء کے گروپوں نے کابینہ کے وزراء سے ملاقات کی تاکہ اراکینِ پارلیمنٹ کی مراعات اور مظاہرین کے خلاف استعمال ہونے والے پولیس کے حربوں پر شکایات پیش کی جا سکیں۔ ہفتے کے آغاز میں انہوں نے پارلیمنٹ کے اراکین سے بھی بات چیت کی، لیکن صدر پروباؤو سبیانتو سے ملاقات کی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں نے بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا کہ کم از کم 10 افراد ہلاک اور 1,000 سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جبکہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں اور دیگر بدامنی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
حکام نے ملک بھر میں 3,000 سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے، جسے انسانی حقوق کے گروپ نے ایک وسیع کریک ڈاؤن قرار دیا ہے۔
حکومت نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا کہ آیا وہ متنازعہ رہائش الاونس د یا سیکیورٹی فورسز کے طرز عمل کا جائزہ لے گی یا نہیں، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعطیلات کے اختتام کے بعد امن و امان برقرار رہے گا یا نہیں۔