کل بروز بدھ دو امریکی حکام نے نام کو پوشیدہ رکھتے ہوئے رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس کو فراہم کردہ معلومات میں کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے عارضی وقفے کے بعد امریکہ، یوکرین کو اسلحے کی ترسیل دوبارہ شروع کر رہا ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے کچھ ہتھیاروں کی ترسیل میں وقفے کی وجہ امریکی فوجی ذخائر میں کمی کے خدشات ہو سکتے ہیں۔
وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے گذشتہ ہفتے پینٹاگون کو ہتھیاروں کے ذخائر کا جائزہ لینے کے لیے اسلحے کی ترسیل میں وقفہ دینے کی ہدایت کی تھی۔ جس پر وائٹ ہاؤس نے حیرانگی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم پینٹاگون نے اس بات کی تردید کی تھی کہ ہیگسیٹھ نےیہ قدم صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مشورہ کیے بغیر اٹھایا ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ اب 155 ملی میٹر کے توپ گولے اور جی ایم ایل آر ایس (موبائل راکٹ آرٹلری) میزائل یوکرین کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔
تاہم حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے ہتھیار بھیجے جا رہے ہیں اور آیا ترسیل مکمل ہو چکی ہے یا نہیں ۔ یہ بھی واضح نہیں تھا کہ اس نئی ترسیل سے انتظامیہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی ظاہر ہوئی ہے یا نہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے منگل کو کہا تھا کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ رابطوں کو بڑھانے کا حکم دیا ہے تاکہ فوجی سامان کی اہم اور خاص طور پر فضائی دفاع سے متعلقہ ترسیل کو یقینی بنایا جا سکے۔
اہم لمحہ
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین اور روس نے ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں۔
یوکرین کی فضائی دفاعی یونٹیں مسلسل دو راتوں سے روسی ڈرونوں کے خلاف کیف کا دفاع کر رہی تھیں۔ حکام نے شہر کے مرکز میں ایک رہائشی عمارت میں آگ لگنے اور مختلف علاقوں میں ڈرون کے ٹکڑے گرنے کی اطلاع دی ہے۔
یوکرین کی فوج نے ٹیلیگرام سے جاری کردہ بیان میں خبردار کیا ہے کہ شہر پر میزائل حملہ بھی ہو سکتا ہے۔
شہر کے میئر 'ویٹالی کلِچکو' نے ٹیلیگرام سے جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ مرکزی ضلعے 'شیوشینکیوسکی' میں دو مکانات میں آگ لگ گئی ہے اور ہنگامی عملے کو شہر کے مختلف حصوں میں بھیج دیا گیا ہے۔